جب کوئی ٹیس دل دکھاتی ہے
نبض کچھ دیر رک سی جاتی ہے
آج آوارگی سے کہہ دوں گا
ایک چوکھٹ مجھے بلاتی ہے
گھپ اندھیرے کا فائدہ لے کر
اوس پھولوں پہ بیٹھ جاتی ہے
کل تلک تو ورق ہی اڑتے تھے
اب ہوا حرف بھی اڑاتی ہے
جاگتے ہیں سبھی شجر آذرؔ
دشت میں کس کو نیند آتی ہے
غزل
جب کوئی ٹیس دل دکھاتی ہے
بلوان سنگھ آذر