EN हिंदी
جب کوئی راستہ نہیں ہوتا | شیح شیری
jab koi rasta nahin hota

غزل

جب کوئی راستہ نہیں ہوتا

امر سنگھ فگار

;

جب کوئی راستہ نہیں ہوتا
کون محو دعا نہیں ہوتا

لوگ ظلمت سے یوں ہی نالاں ہیں
روز روشن میں کیا نہیں ہوتا

ٹوٹے تاروں کو چھو کے دیکھا ہے
ساز دل بے صدا نہیں ہوتا

ہر خوشی دل سے کیوں لگا بیٹھیں
کس میں غم ہو پتہ نہیں ہوتا

آؤ مل بیٹھ لو گھڑی دو گھڑی
اس گھڑی کا پتہ نہیں ہوتا

سرد مہری ہماری عادت ہے
ورنہ ذرے میں کیا نہیں ہوتا

پھر وہی شب وہی طویل سفر
ختم یہ سلسلہ نہیں ہوتا