جب کہ مانوس تھا آلام کے گرداب سے بھی
مل گیا زہر تمسخر کئی احباب سے بھی
میرے رستے ہوئے زخموں کا مداوا نہ ہوا
یہ شکایت ہے ترے شہر کے آداب سے بھی
اب انہیں آنکھ کی پتلی میں چھپانا ہوگا
داغ جو دھل نہ سکے چشمۂ مہتاب سے بھی
کوئی تو زخم مرا ساز تکلم چھیڑے
کوئی تو بات چلے دیدۂ پر آب سے بھی
چشم بے خواب کے خوابوں کی جو تعبیر بنا
وہی دکھلا گیا آنکھوں کو کئی خواب سے بھی
میرا کیا ذکر ہے گلشن بھی ہے مغموم خیالؔ
ہو گئے آپ خفا گوشۂ شاداب سے بھی

غزل
جب کہ مانوس تھا آلام کے گرداب سے بھی
مستحسن خیال