جب کھلے مٹھی تو سب پڑھ لیں خط تقدیر کو
جی میں آتا ہے مٹا دوں ہاتھ کی تحریر کو
جسم سناٹے کے عالم سے گزرتا ہی نہیں
بے حسی نے اور اور بوجھل کر دیا زنجیر کو
بہتا دریا ہے کہ آئینہ گری کا سلسلہ
دیکھتا رہتا ہوں پانی میں تری تصویر کو
صبح نو نے کاٹ ڈالے شام ظلمت کے حصار
کس طرح روکے کوئی کرنوں کی جوئے شیر کو
دھڑکنوں کی چاپ رک جائے تو آئے نیند بھی
ساتھ لے کر پھر رہا ہوں شور دار و گیر کو
جب معانی کا اجالا ہی نہ ہو الفاظ میں
کیوں کریں روشنی سخن کی شمع بے تنویر کو
دھند سائے خوف گہری چپ ہوا کی بے رخی
کیسے عالم میں چلا ہوں دہر کی تسخیر کو
اپنی پیشانی پہ شہرت کی لکیریں کھینچ لے
اپنے سینے سے لگا لے کتبۂ تشہیر کو
عکس آئینے سے پہلے تھا تو پھر صدیقیؔ کیوں
خواب سے پہلے نہ دیکھا خواب کی تعبیر کو

غزل
جب کھلے مٹھی تو سب پڑھ لیں خط تقدیر کو
صدیق افغانی