جب کھلا بادبان ہاتھوں میں
آ گیا آسمان ہاتھوں میں
شعلہ تھا وہ گلاب تھا کیا تھا
پڑ گئے ہیں نشان ہاتھوں میں
گرتے جاتے ہیں پھول بستر پر
کھلتا جاتا ہے تھان ہاتھوں میں
اس نے ہاتھوں پہ ہونٹ کیا رکھے
آ گئی ساری جان ہاتھوں میں
پھول کیا کیا کھلاتی جاتی ہے
کوئی شاخ گمان ہاتھوں میں
وہی رستہ وہی ہوا قیصرؔ
اور وہی شمع دان ہاتھوں میں
غزل
جب کھلا بادبان ہاتھوں میں
نذیر قیصر