جب خود میں کچھ ملا نہ خد و خال کی طرح
کچھ آئنہ میں ڈھونڈھ لیا بال کی طرح
سوئی ہوئی ہے صبح کی تلوار جب تلک
یہ شب ہے جگنوؤں کے لئے ڈھال کی طرح
کچھ روشنی کے داغ اجالے کا ایک زخم
کچھ تو ہے شب کے دل میں زر و مال کی طرح
تحریر کر رہی ہے مری پست تشنگی
جھیلوں کو پانیوں کے بچھے جال کی طرح
ناگن ہے کوئی بیل شجر با خبر نہیں
کینچل چڑھی ہو تن پہ اگر چھال کی طرح
پھر بھی تمام داغ چھپائے نہ چھپ سکے
گو چاندنی بدن پہ رہی شال کی طرح
بس آئنہ سے ایک ملاقات کے سبب
لمحات ہو گئے ہیں مہ و سال کی طرح
تم جھک گئے مینکؔ زمانے کے سامنے
پھولوں سے اور پھلوں سے لدی ڈال کی طرح
غزل
جب خود میں کچھ ملا نہ خد و خال کی طرح
مینک اوستھی