جب خلاف مصلحت جینے کی نوبت آئی تھی
ڈوب مرتے ڈوب مرنے میں اگر دانائی تھی
میں تو ہر ممکن اسے لاتا رہا تیرے قریب
کیا کروں اے دل تری تقدیر میں تنہائی تھی
خوف کا عفریت سانسیں لے رہا تھا دشت میں
رات کے چہرے پہ سناٹے کی دہشت چھائی تھی
ایک یہ نوبت کہ وحشت ڈھونڈھتا پھرتا ہوں میں
ایک وہ موسم کہ گلشن کی ہوا صحرائی تھی
آسماں سے گر رہی تھی شوخ رنگوں کی پھوار
میری آنکھوں میں ترے دیدار کی رعنائی تھی
شب گزیدوں سے حساب غم چکانے کے لئے
تم نہ آئے تھے مگر صبح قیامت آئی تھی
میں کدھر جاتا کہ ہر جانب زبان خلق تھی
میں کہاں چھپتا کہ میرے کھوج میں رسوائی تھی
دہر میں مشہور تھی شاہدؔ مری بے چارگی
اور ان دیکھے جہانوں پر مری دارآئی تھی

غزل
جب خلاف مصلحت جینے کی نوبت آئی تھی
شبیر شاہد