جب خسارے ہی کا سرمایہ ہوں میں
پھر زمیں پر کس لیے آیا ہوں میں
ٹوٹے کرداروں کا ملبہ جوڑ کر
اک نیا قصہ بنا لایا ہوں میں
خواب تک تو ٹھیک تھا لیکن میاں
جاگنے کے بعد گھبرایا ہوں میں
جس کی بنیادوں میں شب کا حسن ہے
ایسی کالی دھوپ کا سایہ ہوں میں
اپنی ہی مرضی سے واپس جانے دے
دیکھ تیرے حکم پر آیا ہوں میں
اے پشاور آخری کوشش ہے یہ
خواب سے اک فاختہ لایا ہوں میں

غزل
جب خسارے ہی کا سرمایہ ہوں میں
اسحاق وردگ