جب کہا تیر تری آنکھ نے اکثر مارا
چتونیں پھیر کے بولے کہ برابر مارا
قدر کچھ بھی مرے دل کی بت کافر نے نہ کی
زلف پیچاں سے جو الجھا تو مرے سر مارا
جان بے موت خدا بھی نہیں لیتا لیکن
تو نے بے موت ہی لوگوں کو ستم گر مارا
چند ذرے میری مٹی کے فقط ہاتھ آئے
دشت غربت کے بگولوں نے جو چکر مارا
اک مسلمان کا دل توڑ دیا کیا کہنا
اپنے نزدیک بڑا آپ نے کافر مارا
مضطرؔ ایسا کوئی اب تک نہ ہو اور نہ ہو
موت نے ہائے عبث داغ سخنور مارا
غزل
جب کہا تیر تری آنکھ نے اکثر مارا
مضطر خیرآبادی