EN हिंदी
جب کبھی تیری یاد آئی ہے | شیح شیری
jab kabhi teri yaad aai hai

غزل

جب کبھی تیری یاد آئی ہے

اوم پرکاش بجاج

;

جب کبھی تیری یاد آئی ہے
ہر کلی دل کی مسکرائی ہے

دل نے بس تیری آرزو کے طفیل
ہر خوشی زندگی کی پائی ہے

سوئے طوفاں دھکیل دی ہم نے
ناؤ ساحل پہ جب بھی آئی ہے

صرف تم ہو مرے زمانے میں
ورنہ ہر شے یہاں پرائی ہے

کھو کے خود کو تری محبت میں
بے خودی بے پناہ پائی ہے

جادۂ منزل محبت میں
دل نے سو بار چوٹ کھائی ہے

پھول کلیوں کا ذکر کر کے بجاجؔ
داستاں تیری ہی سنائی ہے