EN हिंदी
جب کبھی حادثات نے مارا | شیح شیری
jab kabhi hadsat ne mara

غزل

جب کبھی حادثات نے مارا

صبیحہ صبا

;

جب کبھی حادثات نے مارا
یوں لگا کائنات نے مارا

وہ جو منصور کی ادا ٹھہری
اس کو اظہار ذات نے مارا

لوگ دنیا کا غم اٹھاتے ہیں
ہم کو چھوٹی سی بات نے مارا

ہم نہ منہ پھیر کر گزر پائے
چند لمحوں کے سات نے مارا

دن تو کٹ ہی گیا تھا ان کا مگر
کم نصیبوں کو رات نے مارا

موت کا دم صبا غنیمت ہے
ورنہ پل پل حیات نے مارا