جب کبھی دیر و حرم ٹکرائے مے خانوں کے ساتھ
صرف گردش کر دیا ساقی نے پیمانوں کے ساتھ
حسن بھی کمبخت کب خالی ہے سوز عشق سے
شمع بھی تو رات بھر جلتی ہے پروانوں کے ساتھ
روز مے خواروں کی قسمت کے ستارے شام سے
جگمگا اٹھتے ہیں جاگ اٹھتے ہیں مے خانوں کے ساتھ
گردش گردوں خلل انداز مے خانہ ہو کیا
وقت رہتا ہے یہاں گردش میں پیمانوں کے ساتھ
عقل اپنوں سے بھی اکثر بچ کے چلتی ہے ذرا
عشق ہی کمبخت ہو جاتا ہے بیگانوں کے ساتھ
کس قدر خوش فہم تھے جو لوگ اگلے وقت میں
مسجدیں بنوا دیا کرتے تھے بت خانوں کے ساتھ
تا نباشد چیز کے مردم نہ گوید چیز ہا
کچھ حقیقت بھی ہوا کرتی ہے افسانوں کے ساتھ
منفعل کرتا ہے بسمل وہ جنوں کو عقل سے
کوئی فرزانہ جو ہو جاتا ہے دیوانوں کے ساتھ
غزل
جب کبھی دیر و حرم ٹکرائے مے خانوں کے ساتھ
بسمل سعیدی