جب جب رفاقتوں سے گزرنا پڑا مجھے
پر خار وادیوں میں اترنا پڑا مجھے
عہد تغیرات میں جینے کے نام پر
اپنی روایتوں سے مکرنا پڑا مجھے
دریا کے شور و شر سے میں خائف نہ تھا مگر
ساحل کے انتشار سے ڈرنا پڑا مجھے
بچپن کے سب نقوش نگاہوں میں پھر گئے
کچھ دن جو اپنے گاؤں ٹھہرنا پڑا مجھے
اک لمحۂ حیات کی تزئین کے لئے
صدیوں سمٹ سمٹ کے بکھرنا پڑا مجھے
اس منزل فریب سے گزرا ہوں میں جہاں
اپنا بھی اعتبار نہ کرنا پڑا مجھے

غزل
جب جب رفاقتوں سے گزرنا پڑا مجھے
رہبر جونپوری