جب اک سراب میں پیاسوں کو پیاس اتارتی ہے
مرے یقیں کو قرین قیاس اتارتی ہے
ہمارے شہر کی یہ وحشیانہ آب و ہوا
ہر ایک روح میں جنگل کی باس اتارتی ہے
یہ زندگی تو لبھانے لگی ہمیں ایسے
کہ جیسے کوئی حسینہ لباس اتارتی ہے
تمہارے آنے کی افواہ بھی سر آنکھوں پر
یہ بام و در سے اداسی کی گھاس اتارتی ہے
میں سیخ پا ہوں بہت زندگی کی گاڑی پر
یہ روز شام مجھے گھر کے پاس اتارتی ہے
ہمارا جسم سکوں چاہتا ہے اور یہ رات
تھکن اتارنے آتی ہے ماس اتارتی ہے
غزل
جب اک سراب میں پیاسوں کو پیاس اتارتی ہے
افضل خان