جب ہوئے تم چمن میں آن کھڑے
ووہیں ہو گئے گلوں کے کان کھڑے
شکر غم ہے کہ دل کے میداں میں
آہ و نالے کے ہیں نشان کھڑے
بیٹھنے کی نہیں رہی طاقت
ہوویں کیا ہم سے ناتوان کھڑے
اس تلک بال شوق لے پہنچا
رہ گئے در پہ داربان کھڑے
اس کے تیر نگاہ کی دولت
ہیں در دل پہ میہمان کھڑے
بے سبب ہم سے روٹھے جاتے ہو
سن لو ٹک ہو کے مہربان کھڑے
دین و ایمان و جان دینے کو
ہم تو ہیں رو بہ رو ہر آن کھڑے
آج وہ امتحان لے ؔجوشش
ہم بھی ہیں بہر امتحان کھڑے

غزل
جب ہوئے تم چمن میں آن کھڑے
جوشش عظیم آبادی