جب ہم حدود دیر و حرم سے گزر گئے
ہر سمت ان کا جلوہ عیاں تھا جدھر گئے
اس طرح وہ نگاہ کرم آج کر گئے
دل کو سرور بادۂ الفت سے بھر گئے
وہ ہم کو اپنے دل کے ہی اندر نہاں ملا
جس کی تلاش کرتے ہوئے در بدر گئے
کچھ اہل ظرف دیکھتے ہیں اس کے نور کو
محروم دیدیوں کو بہت دیدہ ور گئے
دل لے گیا ہمیں پھر اسی بے وفا کے پاس
جانا نہیں تھا ہم کو جہاں ہم مگر گئے
وہ آ گئے تو جل اٹھے امید کے چراغ
وہ ہنس دئیے تو بزم میں موتی بکھر گئے
آنکھوں میں اشک غم لئے ہم وقت الوداع
نظروں سے ان کے ساتھ تا حد نظر گئے
دیکھا ہمیں تو گرم نگاہی پگھل گئی
مژگاں کے تیر بھوں کی کماں سے اتر گئے
ان کے مزید وعدوں پہ کیسے یقین ہو
اب تک جو وعدہ کر کے برابر مکر گئے
یہ اور اور بات پھر گیا پانی امید پر
ہم ان کی بزم میں کسی امید پر گئے
پھر اس کو پرشش غم الفت سے فائدہ
گھٹ گھٹ کے جس کے سینے میں ارمان مر گئے
اے موجؔ میری کشتی الفت وہیں رہی
طوفان میرے چاروں طرف سے گزر گئے

غزل
جب ہم حدود دیر و حرم سے گزر گئے
موج فتح گڑھی