جب گھر ہی جدا جدا رہے گا
پھر ہاتھ میں ہاتھ کیا رہے گا
وہ میرے خیال کا شجر ہے
آنکھوں میں ہرا بھرا رہے گا
مہمان وہ خال و خد رہیں گے
جب تک مرا شب کدہ رہے گا
رشتہ مرے ساحل نفس سے
اس موج سراب کا رہے گا
وہ حرف جو اس نے لکھ دیا ہے
تا عمر یوں ہی لکھا رہے گا
اے معجزۂ ہوا سنا دے
وہ مجھ میں سدا کھلا رہے گا
غزل
جب گھر ہی جدا جدا رہے گا
شاہدہ حسن