EN हिंदी
جب گھر ہی جدا جدا رہے گا | شیح شیری
jab ghar hi juda juda rahega

غزل

جب گھر ہی جدا جدا رہے گا

شاہدہ حسن

;

جب گھر ہی جدا جدا رہے گا
پھر ہاتھ میں ہاتھ کیا رہے گا

وہ میرے خیال کا شجر ہے
آنکھوں میں ہرا بھرا رہے گا

مہمان وہ خال و خد رہیں گے
جب تک مرا شب کدہ رہے گا

رشتہ مرے ساحل نفس سے
اس موج سراب کا رہے گا

وہ حرف جو اس نے لکھ دیا ہے
تا عمر یوں ہی لکھا رہے گا

اے معجزۂ ہوا سنا دے
وہ مجھ میں سدا کھلا رہے گا