جب ایک بار کسی انتہا پہ جا ٹھہرے
پھر اس کے بعد نظر راستوں میں کیا ٹھہرے
سفر پہ نکلے تھے جب زندگی گرفت میں تھی
مآل کار بس اک موجۂ ہوا ٹھہرے
عجب نہیں ہے کہ برسوں کے گھپ اندھیرے میں
دیا جلائیں تو منظر ہی دوسرا ٹھہرے
چمک اٹھے کبھی آ کر مری ہتھیلی پر
وہی ستارہ کبھی آسماں پہ جا ٹھہرے
مفاہمت کی نکلتی نہیں ہے راہ کوئی
جب اپنے اپنے اصولوں پہ بات آ ٹھہرے
ہم ایک ایسے دوراہے پہ آ چکے ہیں کہ اب
قدم بڑھائے تو رستے جدا جدا ٹھہرے
میں اپنے سانس کی گٹھری اتار لوں سر سے
حیات تیز سفر سے کہو ذرا ٹھہرے
غزل
جب ایک بار کسی انتہا پہ جا ٹھہرے
خاور اعجاز