EN हिंदी
جب دل میں تیری یاد نہ آنکھوں میں نیند تھی | شیح شیری
jab dil mein teri yaad na aankhon mein nind thi

غزل

جب دل میں تیری یاد نہ آنکھوں میں نیند تھی

لطف الرحمن

;

جب دل میں تیری یاد نہ آنکھوں میں نیند تھی
ایسی بھی ایک رات مجھے کاٹنی پڑی

جس کے بغیر پل کا گزرنا محال تھا
اس جان جاں کی یاد بھی مہمان بن گئی

پہلو میں بھی ترے غم دوراں کا ڈر رہا
کار جہاں نے یوں مری مٹی خراب کی

جس کے لیے یہ خاک بسر عمر بھر رہا
اس نے دل غریب کی کوئی خبر نہ کی

جینا نہیں تھا کھیل مگر تیرے نام پر
ہم نے یہ قید سخت بھی ہنس کر گزار دی