جب دل ہی نہیں ہے پہلو میں پھر عشق کا سودا کون کرے
اب ان سے محبت کون کرے اب ان کی تمنا کون کرے
اب ہجر کے صدمے سہنے کو پتھر کا کلیجہ کون کرے
ان لمبی لمبی راتوں کا مر مر کے سویرا کون کرے
ہم رسم وفا کو مانتے ہیں آداب محبت جانتے ہیں
ہم بات کی تہہ پہچانتے ہیں پھر آپ کو رسوا کون کرے
اے جذبۂ الفت تو ہی بتا کچھ حد بھی ہے اس ناکامی کی
مایوس نگاہوں سے ان کا محفل میں نظارا کون کرے
ہم دیکھ چکے ہاں دیکھ چکے دستور تمہاری محفل کا
جب شکر پہ یہ پابندی ہے پھر جرأت شکوہ کون کرے
غزل
جب دل ہی نہیں ہے پہلو میں پھر عشق کا سودا کون کرے
امجد نجمی