EN हिंदी
جب دھیان میں وہ چاند سا پیکر اتر گیا | شیح شیری
jab dhyan mein wo chand sa paikar utar gaya

غزل

جب دھیان میں وہ چاند سا پیکر اتر گیا

صدیق افغانی

;

جب دھیان میں وہ چاند سا پیکر اتر گیا
تاریک شب کے سینے میں خنجر اتر گیا

جب سب پہ بند تھے مری آنکھوں کے راستے
پھر کیسے کوئی جسم کے اندر اتر گیا

ساحل پہ ڈر گیا تھا میں لہروں کو دیکھ کر
جب غوطہ زن ہوا تو سمندر اتر گیا

اک بھی لکیر ہاتھ پہ باقی نہیں رہی
دست طلب سے نقش مقدر اتر گیا

وہ آئنہ کے سامنے کیا رونما ہوئے
سادہ ورق کے رنگ کا منظر اتر گیا

چہرے کی تیز دھار بھی بے کار ہو گئی
جب چشم‌ آب دار سے جوہر اتر گیا

کس درجہ دل فریب تھی دانے کی شکل بھی
پنچھی ہرے شجر سے زمیں پر اتر گیا