جب درد محبت کا مرے پاس نہیں تھا
میں کون ہوں کیا ہوں مجھے احساس نہیں تھا
ٹوٹا مرا ہر خواب ہوا جب سے جدا وہ
اتنا تو کبھی دل مرا بے آس نہیں تھا
آیا جو مرے پاس مرے ہونٹ بھگونے
وہ ریت کا دریا تھا مری پیاس نہیں تھا
بیٹھا ہوں میں تنہائی کو سینہ سے لگا کے
اس حال میں جینا تو مجھے راس نہیں تھا
کب جان سکا درد مرا دیکھنے والا
چہرہ مرے حالات کا عکاس نہیں تھا
کیوں زہر بنا اس کا تبسم میرے حق میں
اے نقشؔ وہ اک دوست تھا الماس نہیں تھا
غزل
جب درد محبت کا مرے پاس نہیں تھا
نقش لائل پوری