جب چاروں اور اندھیرا تھا سچ کم تھا جھوٹ گھنیرا تھا
دریا سے بڑے اک شخص کا اک دریا کے کنارے ڈیرا تھا
وہ تھا کچھ اس کے بچے تھے کچھ ساتھ تھے اور کچھ گھر والے
آئینے سے کورے دل والے کہسار سے اونچے سر والے
یہ لوگ وفا کے حامی تھے ناموس و حیا کے حامی تھے
بس ایک رسول کے قائل بس ایک خدا کے حامی تھے
اس داعیٔ امن و محبت کے رستے میں دشمن کی فوجیں
یوں برسوں پھیل گئیں جیسے چڑھتے دریا کی موجیں
باطل کے ہاتھ پہ یہ ظلم حق والوں سے بیعت لیتے تھے
مہمان بنا کر لائے تھے پانی بھی نہ پینے دیتے تھے
انصاف کی پیار کی آشتی کی سب باتیں جب بیکار گئیں
وہ مرد مجاہد حق کے لیے کٹ مرنے کو تیار ہوا
افراد پہ بھی اقوام پہ بھی یہ مشکل آتی رہتی ہے
ہر دور میں حق و باطل کی قوت ٹکراتی رہتی ہے
پھر جنگ ہوئی وہ جنگ جسے تا حشر نہ بھولے گا کوئی
وہ ظلم ہوئے جن پر اب تک ہر شہر میں ماتم ہوتے ہیں
اس ظلم کا قصہ لمبا ہے اس جنگ کی پستک بھاری ہے
وہ جنگ جو کب کی ختم ہوئی وہ جنگ ابھی تک جاری ہے

غزل
جب چاروں اور اندھیرا تھا سچ کم تھا جھوٹ گھنیرا تھا (ردیف .. ے)
سعید احمد اختر