جب چاہا خود کو شاد یا ناشاد کر لیا
اپنے لئے فریب سا ایجاد کر لیا
کیا سوچنا کہ شوق کا انجام کیا ہوا
جب اختیار پیشۂ فرہاد کر لیا
خود سے چھپا کے خود کو زمانے کے خوف سے
ہم نے تو اپنے آپ کو برباد کر لیا
تھا عشق کا حوالہ نیا ہم نے اس لئے
مضمون دل کو پھر سے طبع زاد کر لیا
یوں بھی پناہ سایہ کڑی دھوپ میں ملی
آنکھیں جھکائیں اور تجھے یاد کر لیا
آیا نیا شعور نئی الجھنوں کے ساتھ
سمجھے تھے ہم کہ ذہن کو آزاد کر لیا
بس کہ امام عصر کا فرمان تھا یہی
منہ ہم نے سوئے قبلۂ اضداد کر لیا
غزل
جب چاہا خود کو شاد یا ناشاد کر لیا
آفتاب اقبال شمیم