EN हिंदी
جب بھی تقدیر کا ہلکا سا اشارہ ہوگا | شیح شیری
jab bhi taqdir ka halka sa ishaara hoga

غزل

جب بھی تقدیر کا ہلکا سا اشارہ ہوگا

آلوک شریواستو

;

جب بھی تقدیر کا ہلکا سا اشارہ ہوگا
آسماں پر کہیں میرا بھی ستارہ ہوگا

دشمنی نیند سے کر کے ہوں پشیمانی میں
کس طرح اب مرے خوابوں کا گزارہ ہوگا

منتظر جس کے لیے ہم ہیں کئی صدیوں سے
جانے کس دور میں وہ شخص ہمارا ہوگا

میں نے پلکوں کو چمکتے ہوئے دیکھا ہے ابھی
آج آنکھوں میں کوئی خواب تمہارا ہوگا

دل پرستار نہیں اپنا پجاری بھی نہیں
دیوتا کوئی بھلا کیسے ہمارا ہوگا

تیز رو اپنے قدم ہو گئے پتھر کیسے
کون ہے کس نے مجھے ایسے پکارا ہوگا