EN हिंदी
جب بھی پیڑوں پہ ثمر جاگتا ہے | شیح شیری
jab bhi peDon pe samar jagta hai

غزل

جب بھی پیڑوں پہ ثمر جاگتا ہے

عمر فرحت

;

جب بھی پیڑوں پہ ثمر جاگتا ہے
دل میں طوفان کا ڈر جاگتا ہے

صبح ہوتے ہی بجھے سارے چراغ
اک ستارہ سا مگر جاگتا ہے

خاک ہو جاتا ہے یہ دست دعا
تب دعاؤں میں اثر جاگتا ہے

شہر میں شور ہے نابینوں کا
کیا کوئی اہل نظر جاگتا ہے

لوٹ جاؤں گا کہ میری خاطر
دشت میں ایک شجر جاگتا ہے