جب بھی پیڑوں پہ ثمر جاگتا ہے
دل میں طوفان کا ڈر جاگتا ہے
صبح ہوتے ہی بجھے سارے چراغ
اک ستارہ سا مگر جاگتا ہے
خاک ہو جاتا ہے یہ دست دعا
تب دعاؤں میں اثر جاگتا ہے
شہر میں شور ہے نابینوں کا
کیا کوئی اہل نظر جاگتا ہے
لوٹ جاؤں گا کہ میری خاطر
دشت میں ایک شجر جاگتا ہے
غزل
جب بھی پیڑوں پہ ثمر جاگتا ہے
عمر فرحت