جب بھی ماضی کے نظارے کو نظر جائے گی
شام اشکوں کے ستاروں سے سنور جائے گی
کیا بتاؤں کہ کہاں تک یہ نظر جائے گی
ایک دن حد تعین سے گزر جائے گی
جب بھی اس کے رخ روشن کا خیال آئے گا
چاندنی دل کے شبستاں میں اتر جائے گی
ہر ستم کرنے سے پہلے یہ ذرا سوچ بھی لے
میں جو بکھرا تو تری زلف بکھر جائے گی
میں یہ سمجھوں گا مجھے مل گئی معراج وفا
زندگی گر تری یادوں میں گزر جائے گی
اس طرف اپنی محبت کی کہانی ہوگی
یہ ہوا بوئے وفا لے کے جدھر جائے گی
کیا خبر تھی کہ ظفرؔ روح مری دنیا میں
آرزوؤں سے کچل کر کبھی مر جائے گی

غزل
جب بھی ماضی کے نظارے کو نظر جائے گی
ظفر انصاری ظفر