جب بھی کشتی کے مقابل بھنور آتا ہے کوئی
جگمگاتا سر ساحل نظر آتا ہے کوئی
بے رخی اس کی دلاتی ہے جہاں کا احساس
لیے دنیا کی خبر بے خبر آتا ہے کوئی
شدت یاس میں چپکے سے اجالوں کی طرح
میرے تاریک خیالوں میں در آتا ہے کوئی
تن تنہا تو سفر دل پہ گراں گزرے گا
منتظر ہوں کہ مرے ساتھ اگر آتا ہے کوئی
ڈوب جاتا ہے جدائی کی شفق میں دن کو
افق خواب سے شب کو ابھر آتا ہے کوئی
اشک پیتا ہوں میں تریاق سمجھ کر جس وقت
زہر بن کر رگ جاں میں اتر آتا ہے کوئی
ہجر ساماں ہے رواں سوئے شب وصل شہابؔ
دھوپ اوڑھے ہوئے زیر شجر آتا ہے کوئی

غزل
جب بھی کشتی کے مقابل بھنور آتا ہے کوئی
شہاب صفدر