EN हिंदी
جب بھی دشمن بن کے اس نے وار کیا | شیح شیری
jab bhi dushman ban ke isne war kiya

غزل

جب بھی دشمن بن کے اس نے وار کیا

عارف شفیق

;

جب بھی دشمن بن کے اس نے وار کیا
میں نے اپنے لہجے کو تلوار کیا

میں نے اپنے پھول سے بچوں کی خاطر
کاغذ کے پھولوں کا کاروبار کیا

میری محنت کی قیمت کیا دے گا تو
میں نے دشت و صحرا کو گلزار کیا

میں فرہادؔ یا مجنوں کیسے بن جاتا
میں شاعر تھا میں نے سب سے پیار کیا

اس کی آنکھیں خواب سے بننے لگتی ہیں
جب بھی میں نے چاہت کا اظہار کیا

اپنے پیچھے آنے والوں کی خاطر
میں نے ہر اک رستے کو ہموار کیا

اس کے گھر کے سارے لوگ مخالف تھے
پھر بھی عارفؔ اس نے مجھ سے پیار کیا