جب بھی دشمن بن کے اس نے وار کیا
میں نے اپنے لہجے کو تلوار کیا
میں نے اپنے پھول سے بچوں کی خاطر
کاغذ کے پھولوں کا کاروبار کیا
میری محنت کی قیمت کیا دے گا تو
میں نے دشت و صحرا کو گلزار کیا
میں فرہادؔ یا مجنوں کیسے بن جاتا
میں شاعر تھا میں نے سب سے پیار کیا
اس کی آنکھیں خواب سے بننے لگتی ہیں
جب بھی میں نے چاہت کا اظہار کیا
اپنے پیچھے آنے والوں کی خاطر
میں نے ہر اک رستے کو ہموار کیا
اس کے گھر کے سارے لوگ مخالف تھے
پھر بھی عارفؔ اس نے مجھ سے پیار کیا
غزل
جب بھی دشمن بن کے اس نے وار کیا
عارف شفیق