جب بھی بھولے سے کبھی لب پہ ہنسی آئی ہے
غم کی تصویر مرے ذہن پہ لہرائی ہے
اس قدر چرچا ہے کچھ آمد فصل گل کا
خار کو خار نہ کہنے ہی میں دانائی ہے
بن گئی خار سر شاخ کلی وہ اک دن
پھول بننے کی تمنا میں جو مرجھائی ہے
آنکھ نے دیکھا نہیں ایک بھی گل خندہ بہ لب
صرف کانوں نے سنا ہے کہ بہار آئی ہے
دن تو سایوں کے تعاقب میں گزارا لیکن
پھر وہی رات وہی میں وہی تنہائی ہے
جب تھا میں گرم سفر سایوں سے کتراتا تھا
تھک گیا ہوں تو مجھے شعلوں پہ نیند آئی ہے
گو میں بیگانہ ہوں خود ذات سے اپنی سیمابؔ
میری فطرت میں مگر انجمن آرائی ہے
غزل
جب بھی بھولے سے کبھی لب پہ ہنسی آئی ہے
سیماب سلطانپوری