جب بھی بادل بارش لائے شوق جزیروں سے
خوشہ خوشہ حرف کی بیلیں بھر گئیں ہیروں سے
تم سے ملے تو شہر تمنا کتنا پھیل گیا
کیا کیا خواب نئے تعمیر ہوئے تعبیروں سے
آنکھیں رنگوں کی برساتیں تک تک جھیل ہوئیں
دل نے کیا کیا عکس کشید کئے تصویروں سے
اس کو چھونے کی خواہش نے ہاتھ بڑھائے تو
پھن پھیلائے نکلے کتنے سانپ لکیروں سے
عالؔی دانش کی بستی میں اب سردار وہی
ڈھونڈ نکالے کچھ اندھیارے جو تنویروں سے
غزل
جب بھی بادل بارش لائے شوق جزیروں سے
جلیل عالیؔ