EN हिंदी
جب بھی آتا ہے وہ میرے دھیان میں | شیح شیری
jab bhi aata hai wo mere dhyan mein

غزل

جب بھی آتا ہے وہ میرے دھیان میں

جاذب قریشی

;

جب بھی آتا ہے وہ میرے دھیان میں
پھول رکھ جاتا ہے روشن دان میں

گھر کے بام و در نئے لگنے لگے
حسن ایسا تھا مرے مہمان میں

تیرا چہرہ آئنے کے سامنے
اور آئینہ نئے امکان میں

عکس تیرے تیری خوشبو تیرے رنگ
بس یہی کچھ ہے مرے سامان میں

جسم و جاں کو تازہ موسم مل گئے
جل گیا میں تیرے آتش دان میں

جو ستارہ پرورش پاتا رہا
وہ ملا ہے پیار کے رجحان میں

تتلیاں کمرے کے اندر آ گئیں
ایک پھول ایسا بھی تھا گلدان میں

آندھیوں میں بھی اڑاتا ہے مجھے
کون ہے یہ میرے جسم و جان میں

دھڑکنیں تیری ہیں بے آواز کیوں
کیا نہیں ہوں میں ترے امکان میں

جب درخت انگنائیوں کے کٹ گئے
دھوپ اتر آئی ہے ہر دالان میں

اجنبی خوابوں کا صورت گر ہوں میں
اور میں گم ہوں تری پہچان میں