EN हिंदी
جب اپنے پیرہن سے خوشبو تمہاری آئی | شیح شیری
jab apne pairahan se KHushbu tumhaari aai

غزل

جب اپنے پیرہن سے خوشبو تمہاری آئی

اسد بھوپالی

;

جب اپنے پیرہن سے خوشبو تمہاری آئی
گھبرا کے بھول بیٹھے ہم شکوۂ جدائی

فطرت کو ضد ہے شاید دنیائے رنگ و بو سے
کانٹوں کی عمر آخر کلیوں نے کیوں نہ پائی

اللہ کیا ہوا ہے زعم خود اعتمادی
کچھ لوگ دے رہے ہیں حالات کی دہائی

غنچوں کے دل بجائے کھلنے کے شق ہوئے ہیں
اب کے برس نہ جانے کیسی بہار آئی

اس زندگی کا اب تم جو چاہو نام رکھ دو
جو زندگی تمہارے جانے کے بعد آئی