جب اپنے پیرہن سے خوشبو تمہاری آئی
گھبرا کے بھول بیٹھے ہم شکوۂ جدائی
فطرت کو ضد ہے شاید دنیائے رنگ و بو سے
کانٹوں کی عمر آخر کلیوں نے کیوں نہ پائی
اللہ کیا ہوا ہے زعم خود اعتمادی
کچھ لوگ دے رہے ہیں حالات کی دہائی
غنچوں کے دل بجائے کھلنے کے شق ہوئے ہیں
اب کے برس نہ جانے کیسی بہار آئی
اس زندگی کا اب تم جو چاہو نام رکھ دو
جو زندگی تمہارے جانے کے بعد آئی
غزل
جب اپنے پیرہن سے خوشبو تمہاری آئی
اسد بھوپالی