EN हिंदी
جب اپنے غم کا فسانہ انہیں سناتے ہیں | شیح شیری
jab apne gham ka fasana unhen sunate hain

غزل

جب اپنے غم کا فسانہ انہیں سناتے ہیں

کشفی لکھنؤی

;

جب اپنے غم کا فسانہ انہیں سناتے ہیں
زمانہ ہنستا ہے ہم پر وہ مسکراتے ہیں

مری نگاہ سے جب وہ نظر ملاتے ہیں
دل غریب کی دنیا اجاڑ جاتے ہیں

ہماری آنکھوں نے ہر انقلاب دیکھا ہے
زمانہ والے ہمیں کس لیے ڈراتے ہیں

یہ کیسا جشن مناتے ہیں گلستاں والے
گلوں کو توڑتے ہیں آشیاں جلاتے ہیں

زمانے والے سمجھتے ہیں ہم کو دیوانہ
تمہارے حسن کے جس وقت گیت گاتے ہیں

تری نگاہ میں ساقی یہ کیسا جادو ہے
کہ بے پیے ہی قدم ڈگمگائے جاتے ہیں

جو تیری بزم طرب میں کبھی گزارے تھے
وہ لمحے اب بھی ہمیں روز یاد آتے ہیں

ہمارے اشکوں کی تابش پہ ہے نظر شاید
جبھی تو شام سے تارے بھی جھلملاتے ہیں

وہ کیا بنائیں گے بگڑا نصیب اے کشفیؔ
جو میرے حال پریشاں پہ مسکراتے ہیں