EN हिंदी
جب اپنا سایہ ہی دشمن ہے کیا کیا جائے | شیح شیری
jab apna saya hi dushman hai kya kiya jae

غزل

جب اپنا سایہ ہی دشمن ہے کیا کیا جائے

افروز عالم

;

جب اپنا سایہ ہی دشمن ہے کیا کیا جائے
یہی تو ذہن کی الجھن ہے کیا کیا جائے

ہیں جس کے ہاتھ میں ذرے بھی ماہ و انجم بھی
اسی کے ہاتھ میں دامن ہے کیا کیا جائے

اداس بام پہ موسم نے کھول دیں زلفیں
کسی بیوگ میں جوگن ہے کیا کیا جائے

وہ شام لطف و طرب اور چاندنی سا بدن
اسی خمار میں ناگن ہے کیا کیا جائے

وہ اپنی شوخ اداؤں سے لوٹتا ہے مجھے
بہت حسین یہ رہزن ہے کیا کیا جائے

وفا پرست ہے آتش فشاں کا رکھوالا
صنم کدے میں برہمن ہے کیا کیا جائے

فریب دیتا ہے عالمؔ پہ راج کرتا ہے
عدو کے ہاتھ میں ہر فن ہے کیا کیا جائے