جب اگلے سال یہی وقت آ رہا ہوگا
یہ کون جانتا ہے کون کس جگہ ہوگا
تو میرے سامنے بیٹھا ہے اور میں سوچتا ہوں
کہ آئے لمحوں میں جینا بھی اک سزا ہوگا
ہم اپنے اپنے بکھیڑوں میں پھنس چکے ہوں گے
نہ تجھ کو میرا نہ مجھ کو ترا پتا ہوگا
یہی جگہ جہاں ہم آج مل کے بیٹھے ہیں
اسی جگہ پہ خدا جانے کل کو کیا ہوگا
یہی چمکتے ہوئے پل دھواں دھواں ہوں گے
یہی چمکتا ہوا دل بجھا بجھا ہوگا
لہو رلائے گا وہ دھوپ چھاؤں کا منظر
نظر اٹھاؤں گا جس سمت جھٹپٹا ہوگا
بچھڑنے والے تجھے دیکھ دیکھ سوچتا ہوں
تو پھر ملے گا تو کتنا بدل چکا ہوگا
غزل
جب اگلے سال یہی وقت آ رہا ہوگا
ریاض مجید