EN हिंदी
جب اچانک مرے پہلو سے مرا یار اٹھا | شیح شیری
jab achanak mere pahlu se mera yar uTha

غزل

جب اچانک مرے پہلو سے مرا یار اٹھا

فراست رضوی

;

جب اچانک مرے پہلو سے مرا یار اٹھا
درد سینے میں اٹھا اور کئی بار اٹھا

زندگی بوجھ نہ بن جائے تن آسانی سے
اپنے رستے میں کبھی خود کوئی دیوار اٹھا

صرصر وقت سے غافل تھا تو اے کبر نژاد
گر گئی خاک زمیں پر تری دستار اٹھا

وہم نظارہ میں ہے عافیت دیدہ و دل
بھول کر بھی نہ کبھی پردۂ اسرار اٹھا

جس سے ہو جائیں مرے چاہنے والے تقسیم
ایسی دیوار نہ کوئی مرے معمار اٹھا

خوف تادیب سے مظلوموں پہ رویا نہ گیا
شام مقتل میں کوئی بھی نہ عزادار اٹھا

دور تک پھیلا ہوا دشت بلا ہے باہر
اپنی محفل سے نہ مجھ کو مرے دل دار اٹھا

ناز بردار ہنر ہو گئے رخصت کب کے
اب بساط سخن و نغمہ و اشعار اٹھا

سامنے تیرے زر افشاں ہے نئی صبح امید
اپنی پلکوں کو ذرا دیدۂ خوں بار اٹھا

کل فراستؔ تھا یہاں مجمع یاراں ترے ساتھ
اب اسی شہر میں تنہائی کے آزار اٹھا