EN हिंदी
جب آہ بھی چپ ہو تو یہ صحرائی کرے کیا | شیح شیری
jab aah bhi chup ho to ye sahrai kare kya

غزل

جب آہ بھی چپ ہو تو یہ صحرائی کرے کیا

ثروت زہرا

;

جب آہ بھی چپ ہو تو یہ صحرائی کرے کیا
سر پھوڑے نہ خود سے تو یہ تنہائی کرے کیا

گزری جو ادھر سے تو گھٹن سے یہ مرے گی
حبس دل وحشی میں یہ پروائی کرے کیا

کہتی ہے جو کہنے دو یہ دنیا مجھے کیا ہے
زندانی احساس میں رسوائی کرے کیا

ہر حسن و ادا دھنس گئے آئینے کے اندر
جب راکھ ہوں آنکھیں تو یہ زیبائی کرے کیا

وہ زخم کہ ہر لمس نیا زخم لگے ہے
بیماری ادراک مسیحائی کرے کیا

پل بھر کو یہ سودائے جنوں کم نہیں ہوتا
شہروں کے تکلف میں یہ سودائی کرے کیا