جب آفتاب کی آگ اس زمیں کو چاٹے گی
مکاں کی کھوج میں سڑکوں پہ بھیڑ بھاگے گی
میں دیکھتا ہی رہوں گا ترے سراپا کو
جب آنکھ سوئے گی میری نگاہ جاگے گی
جو ڈس رہی ہے ابھی جاگتی نگاہوں کی
سویرا ہوتے ہی وہ رات زہر کھائے گی
جو سونا چاہو تو دروازے بند کر لینا
کھلا رہے گا یہ کمرہ تو دھوپ جھانکے گی
لبوں پہ نیند کا غلبہ اگر ہوا شارقؔ
یقیں ہے میرے قلم کی زبان جاگے گی

غزل
جب آفتاب کی آگ اس زمیں کو چاٹے گی
شارق جمال