جاتے کہاں جنون کے طوفاں میں آ گئے
آخر کو چارہ گر مرے زنداں میں آ گئے
وہ شور و غل وہ شہر کا طوفان زندگی
اچھے رہے وہی جو بیاباں میں آ گئے
وہ ان کی سیر باغ وہ ذوق بہار ناز
پھول آپ ٹوٹ ٹوٹ کے داماں میں آ گئے
اس گل کی آرزو میں خلش اس قدر ہے کیوں
کانٹے کہاں سے حسرت و ارماں میں آ گئے
جو گھر بچے بچائے تھے طوفان آہ سے
وہ انتظام دیدۂ گریاں میں آ گئے
شایاں تمہاری شان کے یہ زندگی نہیں
تم کیوں ہمارے خواب پریشاں میں آ گئے
ہے اہل بزم یہ بھی اک انداز ناز حسن
آنسو کہاں سے شمع فروزاں میں آ گئے
شاکرؔ نہیں ہے ربط جنہیں صبر و شکر سے
حیواں ہے وہ جو صورت انساں میں آ گئے
غزل
جاتے کہاں جنون کے طوفاں میں آ گئے
شاکر عنایتی