EN हिंदी
جاتے جاتے یہ نشانی دے گیا | شیح شیری
jate jate ye nishani de gaya

غزل

جاتے جاتے یہ نشانی دے گیا

کفیل آزر امروہوی

;

جاتے جاتے یہ نشانی دے گیا
وہ مری آنکھوں میں پانی دے گیا

جاگتے لمحوں کی چادر اوڑھ کر
کوئی خوابوں کو جوانی دے گیا

میرے ہاتھوں سے کھلونے چھین کر
مجھ کو زخموں کی کہانی دے گیا

حل نہ تھا مشکل کا کوئی اس کے پاس
صرف وعدے آسمانی دے گیا

خود سے شرمندہ مجھے ہونا پڑا
آئنہ جب میرا ثانی دے گیا

مجھ کو آذرؔ اک فریب آرزو
خوبصورت زندگانی دے گیا