جاتے جاتے یہ نشانی دے گیا
وہ مری آنکھوں میں پانی دے گیا
جاگتے لمحوں کی چادر اوڑھ کر
کوئی خوابوں کو جوانی دے گیا
میرے ہاتھوں سے کھلونے چھین کر
مجھ کو زخموں کی کہانی دے گیا
حل نہ تھا مشکل کا کوئی اس کے پاس
صرف وعدے آسمانی دے گیا
خود سے شرمندہ مجھے ہونا پڑا
آئنہ جب میرا ثانی دے گیا
مجھ کو آذرؔ اک فریب آرزو
خوبصورت زندگانی دے گیا
غزل
جاتے جاتے یہ نشانی دے گیا
کفیل آزر امروہوی