EN हिंदी
جاتے ہیں وہاں سے گر کہیں ہم | شیح شیری
jate hain wahan se gar kahin hum

غزل

جاتے ہیں وہاں سے گر کہیں ہم

غضنفر علی غضنفر

;

جاتے ہیں وہاں سے گر کہیں ہم
ہر پھر کے پھر آتے ہیں وہیں ہم

صد حیف کہ کنج بے کسی میں
کوئی نہیں اور ہیں ہمیں ہم

خاموشی کی مہر ہے دہن پر
ہیں حلقۂ غم میں جوں نگیں ہم

آیا نہ وو شوخ اور گئے آہ
حسرت ہی بھرے تہ زمیں ہم

تکتے رہے جانب در اے وائے
مر مر کے بہ وقت واپسیں ہم

کیا کیا کھینچے ہیں آپ کو دور
ٹک بیٹھے جو یار کے قریں ہم

دیکھ آئینہ ہم سے پوچھے تھے یوں
سچ کہیو کہ کیسے ہیں حسیں ہم

قسمت میں تو ہجر ہے غضنفرؔ
اب وہ ہے تو آپ میں نہیں ہم