جاتے ہے خانقاہ سے واعظ سلام ہے
ہم دیر سے چلے صنم اب رام رام ہے
صورت وہ سانولی کہ کنھیا غلام ہے
میرے صنم سے خوب تر اللہ کا نام ہے
در پیش ہے وہ منزل نا طاقتی ہمیں
اٹھے جو ہم سفر ہے جو بیٹھے مقام ہے
صیاد ہی بہار کے پردے میں بلبلو
ہر غنچہ ہے قفس رگ گل تار رام ہے
کیوں کر نہ میری یاد فراموش ہو اسے
سمجھا ہے یار ننگ جسے میرا نام ہے
میرا لہو چٹائے گا جب تک نہ تیغ کو
قاتل کو دہنے ہاتھ کا کھانا حرام ہے
ساقی سے ہو جو دل شکنی بھی تو لطف ہے
ٹوٹا جو شیشہ میری بغل کا تو جام ہے
فصل بہار بات کی بات اس چمن میں ہے
آواز غنچہ رخصت گل کا پیام ہے
مستی ٹپک رہی ہے یہاں بال بال سے
تن میں لہو نہیں یہ مے لعل فام ہے
تحریر حال کی کسے طاقت ہے نامہ بر
ہے جان ہونٹوں پر یہ زبانی پیام ہے
وہ ماہ رو چھپا ہے محاق حجاب میں
عاشق کے زندگی کا مہینہ تمام ہے
سمجھے رہیں بہت مرے کم مائیگی حریف
قطرہ وہ ہوں کہ آج مرا بحرؔ نام ہے
غزل
جاتے ہے خانقاہ سے واعظ سلام ہے
امداد علی بحر