EN हिंदी
جاری تھی ابھی دعا ہماری | شیح شیری
jari thi abhi dua hamari

غزل

جاری تھی ابھی دعا ہماری

شاہین عباس

;

جاری تھی ابھی دعا ہماری
اور ٹوٹ گئی صدا ہماری

یاں راکھ سے بات چل رہی ہے
تو شعلگی پر نہ جا ہماری

جھونکا تھا گریز کے نشے میں
دیوار گرا گیا ہماری

دنیا میں سمٹ کے رہ گئے ہیں
بس ہو چکی انتہا ہماری

میں اور الجھ گیا ہوں تجھ میں
زنجیر کھلی ہے کیا ہماری

آ دیکھ جو ہم دکھا رہے ہیں
آ بانٹ کبھی سزا ہماری

پانی پہ مذاق بن گئے ہم
کشتی میں نے تھی جا ہماری

گو ایک غبار میں ہیں دونوں
وحشت ہے جدا جدا ہماری