EN हिंदी
جانتا ہوں اب یونہی برباد رکھے گا مجھے | شیح شیری
jaanta hun ab yunhi barbaad rakkhega mujhe

غزل

جانتا ہوں اب یونہی برباد رکھے گا مجھے

مبین مرزا

;

جانتا ہوں اب یونہی برباد رکھے گا مجھے
وہ بھی لیکن اس بہانے یاد رکھے گا مجھے

خود مری وارفتگی نے دور اسے مجھ سے کیا
یہ خیال اب عمر بھر ناشاد رکھے گا مجھے

حال سے میرے رہے گا بے خبر بھی اب وہی
جو کہ محو وحشت و افتاد رکھے گا مجھے

مہرباں جب ہو تو کرتا ہے اسیری کا سوال
وہ خفا ہے جب تلک آزاد رکھے گا مجھے

خود سے بھی پہلے رکھا تھا مجھ کو جس نے کل تلک
لگ رہا ہے اب وہ سب کے بعد رکھے گا مجھے