EN हिंदी
جاننے کے لئے بیتاب تھا اغیار کا حال | شیح شیری
jaanne ke liye betab tha aghyar ka haal

غزل

جاننے کے لئے بیتاب تھا اغیار کا حال

محمد عابد علی عابد

;

جاننے کے لئے بیتاب تھا اغیار کا حال
اس نے پوچھا نہ ہمارے دل بیمار کا حال

شمع بھی جلنے پہ آمادہ تھی پروانہ بھی
ایک جیسا ہی تھا مطلوب و طلبگار کا حال

سوگواری میں ہماری تھے برابر کے شریک
ہم سے ملتا تھا ہمارے در و دیوار کا حال

سرو تمثال ہے قامت میں شباہت میں گلاب
کیا بیاں سامنے اس کے کریں گلزار کا حال

اس طرف جو بھی گیا لوٹ کے آیا نہ کبھی
پوچھئے کس سے مقام رسن و دار کا حال

سب نے دل تھام لیا دیکھ کے اس کو عابدؔ
ایک ہی جیسا ہوا کافر و دیندار کا حال