جاننے کے لئے بیتاب تھا اغیار کا حال
اس نے پوچھا نہ ہمارے دل بیمار کا حال
شمع بھی جلنے پہ آمادہ تھی پروانہ بھی
ایک جیسا ہی تھا مطلوب و طلبگار کا حال
سوگواری میں ہماری تھے برابر کے شریک
ہم سے ملتا تھا ہمارے در و دیوار کا حال
سرو تمثال ہے قامت میں شباہت میں گلاب
کیا بیاں سامنے اس کے کریں گلزار کا حال
اس طرف جو بھی گیا لوٹ کے آیا نہ کبھی
پوچھئے کس سے مقام رسن و دار کا حال
سب نے دل تھام لیا دیکھ کے اس کو عابدؔ
ایک ہی جیسا ہوا کافر و دیندار کا حال

غزل
جاننے کے لئے بیتاب تھا اغیار کا حال
محمد عابد علی عابد