جانب دشت کبھی تم بھی نکل کر دیکھو
دوستو آبلہ پائی کا عمل کر دیکھو
میری آشفتہ سری پر نہ ہنسو اے لوگو
عشق کی آگ میں خود بھی ذرا جل کر دیکھو
تم جو چاہو تو مرے دل کو سکوں مل جائے
اپنا انداز نظر کچھ تو بدل کر دیکھو
میں تمہیں جینے کے انداز سکھا سکتا ہوں
ایک دو گام میرے ساتھ تو چل کر دیکھو
چاندنی راتوں میں پھرتا ہے کوئی آوارہ
تم کو فرصت جو ملے گھر سے نکل کر دیکھو
فاصلے برسوں کے پل بھر میں سمٹ آئیں گے
آج کی شب مرے پہلو میں مچل کر دیکھو
اس کا چہرہ ہے کسی دشت کا سورج ناصرؔ
اس کی جانب کبھی دیکھو تو سنبھل کر دیکھو
غزل
جانب دشت کبھی تم بھی نکل کر دیکھو
ناصر زیدی