جانیں مشتاقوں کی لب پر آئیاں
بل بے ظالم تیری بے پروائیاں
جیب تو کیا ناصحا دامن کی بھی
دھجیاں کر عشق نے دکھلائیاں
اس سمن انداز گل رخسار کی
جاں فزا نکہت چرا کر لائیاں
سن کے یہ باد صبا نے باغ میں
گٹھریاں غنچوں کی سب کھلوایاں
دیکھتے ہی اس کو شیدا ہو گیا
کیا ہوئیں بیدارؔ وے دانائیاں
غزل
جانیں مشتاقوں کی لب پر آئیاں
میر محمدی بیدار