جانے تو کیا ڈھونڈ رہا ہے بستی میں ویرانے میں
لیلیٰ تو اے قیس ملے گی دل کے دولت خانے میں
جنم جنم کے ساتوں دکھ ہیں اس کے ماتھے پر تحریر
اپنا آپ مٹانا ہوگا یہ تحریر مٹانے میں
محفل میں اس شخص کے ہوتے کیف کہاں سے آتا ہے
پیمانے سے آنکھوں میں یا آنکھوں سے پیمانے میں
کس کا کس کا حال سنایا تو نے اے افسانہ گو
ہم نے ایک تجھی کو ڈھونڈا اس سارے افسانے میں
اس بستی میں اتنے گھر تھے اتنے چہرے اتنے لوگ
اور کسی کے در پہ نہ پہنچا ایسا ہوش دوانے میں
غزل
جانے تو کیا ڈھونڈ رہا ہے بستی میں ویرانے میں
ابن انشا