جانے پھر اس کے دل میں کیا بات آ گئی تھی
مجھ کو گلے لگا کر وہ خود بھی رو پڑی تھی
ہم دونوں درمیاں سے اس رات ہٹ چکے تھے
دونوں کے درمیاں بس اک پاک روشنی تھی
جذبات کے سمندر بے چین ہو رہے تھے
جب چاند تھا ادھورا جب رات سانولی تھی
اک بات کہتے کہتے لب خشک ہو چلے تھے
آنکھوں سے ایک ندی چپ چاپ بہہ چلی تھی
آنکھوں میں ایک چہرہ کچھ ایسے گھل رہا تھا
کاجل پگھل پگھل کر تصویر بن گئی تھی
سورج نہیں اگا تھا پر رات ڈھل چکی تھی
دوشیزگی کا لمحہ گھونگھٹ میں وہ کلی تھی
غزل
جانے پھر اس کے دل میں کیا بات آ گئی تھی
تری پراری